زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
منیرمیانی کا یہ شعر ہمارے ملک میں ہونے والے سڑک حادثات کی عکاسی کرتا ہے، سڑک حادثات ہمارے ملک میں ایک معمول کی صورت اختیار کر گیا ہے ہمارے مسائل بہت ہی عمومی سطح کے ہیں جیسے کہ اوورسپیڈنگ، اوور ٹیکنگ وغیرہ اور یہی معمول کے حادثات سے ناجانے کتنے ہی لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جو لوگ سڑک پر آتے ہیں اب ان کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ واپس کبھی اپنے گھروں کا جا بھی سکیں گے یا نہیں۔ اور زیادہ برے حادثے میں بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ہے کہ اس کی خبر میڈیا پر چلا دی جاتی ہے کہ سڑک حادثات مزید کتنی جانیں لے گئے اور بس! لیکن وہ ایک زندگی کتنی قیمتی ہوتی ہے اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا، وہ ایک زندگی اپنے خاندان کا واحد کفیل بھی ہوسکتی ہے، وہ ایک زندگی پر ناجا نے کتنی زندگیاں منحصر ہیں اب قصور کسی کا بھی ہو لیکن ایک جیتا جاگتا انسان تو ابدی نیند سو چکا ہے اور نہ صرف اپنے گھر کے لیے امید کی کرن بلکہ وہ پاکستان کا بھی ایک قیمتی اثاثہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ دنوں میں ایک سڑک حادثے میں ایک نوجوان شکیل ظفر اپنی جان کی بازی ہار گیا، حادثے کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں لیکن اگر صرف اسی کیس پر توجہ مبذول کی جائے تو وہ نوجوان ایک پی ایچ ڈی کا اسٹوڈنٹ تھا اور اے آئی کی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا تھا وہ مختلف یونیورسٹیز میں درس و تدریس کے نظام سے منسلک تھے ، آئی ٹی کے شعبے سے منسلکAI میں اسپیشل خصوصیات کے حامل تھے،میں نے بطور محقق ان سے اپنے پروجیکٹ کے ٹیکنالوجی پارٹ کا جائزہ لیا اور انہوں نے ایسے نت نئے اے آئی پر مبنی آئیڈیاز دیے جو کہ انسانی فلاح و بہبود اور ان کی حفاظت کے لیے ایک مثبت اقدام میں سے ایک تھا۔ ایک ایسا سرمایہ جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کلیدی کردار نبھا رہا تھا۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جو کہ ناقابل تلافی ہے، سڑک حادثات میں ہونے والی اموات میں سب سے بڑی وجہ لا پرواہ انداز ہے ہر انسان شاید اسی یقین کے ساتھ سڑک پر آتا ہے کہ وہ محفوظ رہے گا جو کہ خوش آئند سوچ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا خطرہ اسی سوچ کی وجہ سے ہو جانے والی لاپرواہی ہے۔ پاکستان میں بے ہنگم ٹریفک کا نظام بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس کی وجوہات صرف ایک سطح پر نہیں ہو سکتی، اس میں سڑک سے منسلک ہر پہلو قابل غور اور قابل فکر ہے اور بہت حد تک ذمہ دار بھی۔ جیسے کہ سڑکوں کی تعمیر، گاڑیوں کے معیار کا تعین اور ان کے اندر سیفٹی فیچرز کا ہونا، ان کے اوپر مجوزہ قانون پر عمل درآمد کا یقینی بنانا ، یہ سب چیزیں ہوں گی تو ہم کسی انسان کو آگاہی دینے اور صرف اس کو ہی قصوروار ٹھرانے کے اہل ہوں گے۔ پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیاں ، کسی بھی دوسرے ملک میں معیارات کے اعتبار سے سب سے کم درجے پر ہیں جس کی وجہ نظام کی خرابی اور عدم توجہی ہے۔
Excellent piece of writing…