چند دن پہلے ہم نے جشن ازادی منا کر وطن عزیز سے اپنی محبت کا بھرپوراظہارکیا- جشن ازادی جس جوش و خروش کے ساتھ ہم نے منائےایسا گماں ہوا کہ ہمیں اس ملک سے بہت پیارہے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں، یہ ہونا بھی چاہیے- مگراُس جشن کو مناتے ہوئےاُس ایک دن کے اندر ہم نے اپنی فضا کوالودہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا- ہم نے اتش بازی کا خوب مظاہرہ کیا، پٹاخے پھوڑے اور اونچی اواز کے باجے بجانے میں پوری دن رات لگا کر اپنے ماحول کو ہر طرح سے الودہ کرنے کا بھی خوب مشق کیا- میں رات بارہ بجے گھر کی چھت پر کھڑے اتش بازی کا نظارہ دیکھ کر اول تو خوش ہونے لگا لیکن جب اتش بازی، پٹاخے اور باجے زور سے بجنے لگے تو فضا کی کچھ عجیب کیفیت ہونے لگی- اسی اثنا فضا میں دھواں بھی خوب ابھرنے لگی تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ فضا تو واقعی کچھ زیادہ ہی الودہ ہونے لگی ہے- یہ سلسلہ جاری رہا اورمجھ میں اچانک اکتاہٹ آگئ تو میں نے ممٹی کا دروازہ بند کر کے اندر انے کو ہی عافیت جانا
کیا اس ملک سے محبت کے اظہارکا یہی ایک طریقہ بچا ہے کہ ہم اپنے فضا کو اس قدر دھواں زدہ اور الودہ کریں کہ اس سے مختلف بیماریاں جنم لینے لگے- جو مواد اتش بازی میں استعمال ہوتے ہیں وہ فضائی الودگی کا سبب بنتے ہیں اور اس سے کئی بیماریاں جنم لیتے ہیں مثلاَ سانس کی بیماریاں، دمہ، نمونیا وغیرہ- یہ پٹاخے باجے اور اتشگیر مواد انسانوں کے ساتھ ساتھ نہ جانے کئی جانوروں اور خاص کر پرندوں کے لیے نقصان دہ ہیں- جب پوری رات اتش بازی اور پٹاخوں کی آواز گونجتی رہتی ہے تو نہ جانے کتنے جانوروں اور پرندوں پر اس کے نقصان دہ اثرات پڑتے ہونگے- بحیثیت انسان کیا ہم نےکبھی ایسا سوچا ہے؟ میرے مشاہدے کے مطابق ہم چند لمحوں کے لئے کھبی سوچ تو لیتے ہیں لیکن ہمارے اندر کے احساس اس قدرکمزور ہو چکے ہیں کہ ہم صرف اپنی تفریح اور اسائش کو سب چیزوں پرترجیح دیتے ہیں
ہماری اسائش و آرام کا اندازہ اس عمل سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی گھر کے لئے کچھ سودا چاہیے ہو توچند قدم پر واقع دکان یا مارکیٹ جانے کے لیے ہم گاڑی اور موٹر سائیکل کا استعمال کر لیتے ہیں- ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ ایک گاڑی سے خارج ہونے والی مختلف اقسام کے گیسزہمارے فضائی الودگی میں کس قدر اضافہ کر رہے ہیں- ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں میں جو ایندھن استعمال ہورہا ہے اس سے ہمارے فضا میں کاربن کی اخراج میں سالانہ چھ (6) فیصد اضافہ ہورہا ہے اوریہ وہ نقصان دہ اخراج ہیں جو ہمارے فظائی الودگی کا سبب ہیں- موجودہ وقت میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کو بین الاقوامی دنیا میں موسمیاتی تغیرات اور فضائی الودگی کے لیے ایک بہت بڑامسلہ تصور کیا جاتا ہے
اس طرح کی فضائی الودگی بڑھانے میں ہم بحیثیت پاکستانی قوم کسی سے پیچھے نہیں ہیں، روزانہ کے حساب سے ہمارے ملک میں گاڑیوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ہم
چھوٹے چھوٹے فاصلے پر جانے کے لیے گاڑیاں اورموٹرسایئکل کی استعمال کو اپنا اسٹیٹس سمجھتے ہیں اورکچھ ہی قدم پیدل چلنے میں آر محسوس
اگر ہمیں واقعی اپنے وطن اور اس زمین سے محبت ہے تواس کا اظہار مثبت انداز میں کریں- میں ہرگزیہ نہیں کہتا کہ ہمیں جشن ازادی منانی ہی نہیں چاہیے اور اتش بازی پر مکمل پابندی لگے- ہم یہ اتش بازی ایک مخصوص وقت میں چند منٹوں کے لیے اگر کر لے تو کم از کم اس مٹی سے برائےنام محبت میں ہم اس کی فضا کا بیڑا تو غرق نہیں کریں گے- اسی طرح میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پاکستان میں سڑکوں پرگاڑیاں اورموٹرسایئکل نہیں چلنی چاہیے- ہر کسی کو حق ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق گاڑی یا موٹر سائیکل رکھ لے لیکن گھر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع مارکیٹ یا پانی کے فلٹر پر جانے کے لیے گاڑی کا استعمال کہاں کی عقلمندی ہے؟ ایک تو ہمارے ملک میں گاڑیوں کے لیے پارکنگ کا نظام بھی اس قدر بہتر نہیں ہے اور دوسری طرف چھوٹی بڑی سڑکوں پر گاڑیوں کا رش رہتا ہے- ایسے میں ہمارے پاس موزوں حل یہ ہے کہ چھوٹےچھوٹے فاصلے پر پیدل چلنے کی عادت اپنائے اوراس کے علاوہ اگرآپ کے علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہیں، تواپنی ذاتی گاڑیوں کو چھوڑ کراُس سہولت سے مستفید ضرور ہو
قائد اعظم یونیورسٹی کی سکول آف سوسیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد زمان کی زیرنگرانی ریسرچ ٹیم ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے جو کہ پاکستان کو ایک بہترین پبلک ٹرانسپورٹ نظام دینے میں اپنا بھرپورکردارادا کرےگی اورامید ہے کہ جلد ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک عمدہ نظام متعارف ہوگا جو کہ لوگوں کو نہ صرف سفرکرنے کی سہولت فراہم کرے گا بلکہ ہمارے فضا بھی بڑی تعداد میں چلنے والی پرائیویٹ گاڑیوں سے نکلنے والی دھواں کی تباہی سے بچ جائے گا