گزشتہ دنوں میں اپنے گاؤں (اپرچترال) میں چھٹیاں گزارنے گیا- انہی دنوں مجھے میرے ایک کزن نےاپنی شادی پہ مدعو کیا اور میں اپنے کچھ فیملی ممبرز کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے نکل پڑا- آدھے راستے میں میرے ساتھ بیٹھے میرے ایک فیملی ممبر کو کال موصول ہوئی جہاں اُس نے فورا کسی کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا تو مجھے سمجھ آ گیا کہ کوئی ناخوشگوار خبر سنائی گئی ہے- کال بند کرنے کے بعد اُس نے ہمیں بتایا کہ ہم سے کچھ ہی قدم آگے ایک گاڑی کے ساتھ حادثہ پیش ایا ہے- تقریبا دو منٹ کا سفر طے کرکےھم جس مقام پر پہنچے وہاں کچھ ہی افراد سڑک کے کنارے کھڑے دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وہاں حادثہ پیش ایا ہے اور ساتھ ہی ہمیں یہ پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ یہ ایکسیڈنٹ معمولی نوعیت کا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ راستے کے دائیں جانب بہت بڑی کھائی تھی- گاڑی روک کرھم اتر گۓاور سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں کی طرف بھاری دل کے ساتھ قدم بڑھائے- جب ہم جائےحادثہ پہنچے ہی تھےکہ کچھ لوگوں نے چادرکی مدد سے ایک شخص جوکہ جوان تھا، کو کھائی کے اوپری حصے تک پہنچائے اسےمذید اُوپرلانے کے لئے دوسروں سے مدد طلب کر رہے تھے- اُس زخمی شخص کو دیکھ کر مجھےاندازہ ہوگیا کہ وہ تشویشناک حالت میں ہے-
اُسے اُس چادر ہی میں لپیٹ کرایک نیلی رنگ کی گاڑی میں منتقل کر کے وہاں سے تقریبا 15 سے 16 کلومیٹر دور واقع ہسپتال کی طرف لے جایا گیا- اسی لمحے ایک اور نوجوان کو اُس کھائی سے سڑک پر لایا گیا- وہ خون میں لت پت تھا- اُسے دیکھ کر میری حالت غیر ہونے لگی تھی کہ اُس کھائی میں کھڑے ایک شخص جوکہ زخمیوں کی مدد کے لیے گیا ہوا تھا، نے کچھ لوگوں کومذید زخمیوں کی مدد کے لئے نیچےبلانے لگا اورساتھ یہ آواز بھی لگائی کہ وہاں کچھ لاش بھی موجود ہیں- یہ سن کر میری حالت اور بھی غیر ہوگئی- چونکہ ہمارے ساتھ گھر کی ایک خاتون ممبر بھی موجود تھیں اور وہ اسی صورت حال کودیکھ کرزیادہ پریشان ہونے لگی تو ہم وہاں سے نکل پڑے- بعد میں پتہ چلا کہ اس سڑک حادثہ میں میں تین لوگ فوت ہوئے- اس حادثےمیں سب سے زیادہ دلخراش لمحہ میرے لیے یہ تھا کہ جس جوان کو سب سے پہلے زخمی حالت میں اُس کھائی سے نکال کر جس نیلی رنگ کی گاڑی میں لٹایا گیا تھا وہ گاڑی اس کے والد کی تھی اور اس جوان کو لے جانے والا بھی خود اس کا والد تھا (جو کہ اس گاڑی کا ڈرایئور تھا)- وہ جوان نہ جانے کئ مہینون یا سال بعد شہر سےچھٹیاں گذارنے اپنے گھر جا رہا تھا اور جس جگہ پراُس کا ایکسیڈنٹ ہوا وہاں سے کچھ قدم آگے اس کا گھر تھا- چند منٹ پہلے وہ اپنی ماں سے فون پر بات کرکے اسے خوشخبری سناتا ہے کہ وہ چند منٹ میں گھر پہنچ رہا ہے (اس کے بارے میں بعد میں ہمیں بتایا گیا)- ماں انتظار کر رہی تھی اور یہ وہ انتظار ہے جو کہ کبھی نہ ختم ہونے والی انتظار میں تبدیل ہوچکا تھا کیونکہ وہ جوان راستے میں دم توڑ چکا تھا- یہ واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے- سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات اور حادثات سڑکوں پر واقع ہوتے ہیں- پاکستان میں ایک مختاط اندازے کے مطابق 30 ہزار کے اۤس پاس افراد سالانہ روڈ ٹریفک حادثات میں مرجاتے ہیں- ان حادثات کے پیچھے بہت سارے عوامل موجود ہوتے ہیں- ان میں خراب سڑکیں، چلتی گاڑی میں تکنیکی خرابی اور گاڑی چلانے والے لوگوں(ڈرائیورز) کی غفلت شامل ہیں- میں یہاں پر اگر کہوں کہ سڑک پر ہونے والےحادثات کے پیچھے سب سے اہم وجہ گاڑی چلانے والوں کا رویہ ہے تو غلط نہیں ہوگا-
اکثر گاڑی چلانے والے نہ اسپیڈ کا خیال رکھتے ہیں، نہ ہی راستے کی خرابی کی پرواہ کرتے ہیں- بلکہ اوور لوڈنگ، غلط اوورٹیکنگ اور نہ غلط راستے پرگاڑی چلانا معمولی بات سمجھی جاتی ہے- یہ وہ روئیے ہیں جو روزانہ کے حساب سے ہمارے ملک میں کئ خاندان اجاڑدیتے ہیں- ہمارےڈرائیورز حظرات نے روڈ سیفٹی کلچر کو اپنانے کی بجائے غیر محفوظ روئیے اپنا کر نہ جانے کئ ماؤں کو ان کے جوان سال بچوں کی آہ میں پوری زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں- جس حادثہ کی میں نے روداد سنائی ہے اس میں بھی مجھے انسانی رویہ، یعنی ڈرائیور کی غفلت نظر آئی- جس طرف سے اُس گاڑی کو حادثہ پیش ایا اور وہ کھائی میں گری ہے،اول تو یہ کہ اُسے اُس طرف سے گذرنا ہی نہیں چاہیےتھی- دوسری بات مجھے جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ شاید اس گاڑی کی رفتار کو کم نہ کر کے غلط سائیڈ سے گزرنےکی خواہش نے اُس ڈرائیور سے یہ حادثہ کرایا کیوں کہ جس طرف سے اسے گزرنا تھا اس کے لئے اسپیڈ کم کرنا لازمی تھا (وہاں راستہ بنسبت کچا تھا لیکن محفوظ تھا) اُس سڑک پر-
کب تک ہم انسانی جانوں کے ساتھ ایسے ہی کھیلتے رہیں گے؟ ہمیں چاہیے کہ ہمیں اپنا روڈ سیفٹی کلچر متعارف کرنے کی ضرورت ہے اور اُس پر سختی سے عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے- اس سیفٹی کلچرمیں گاڑی کو سڑک کے حساب سے مناسب رفتار پر چلانا، ہمیشہ اپنے سائیڈ پر گاڑی چلانا، گاڑی کےاشاروں کا صحیح استعمال، گاڑی کی استطاعت کے مطابق لوڈنگ، گاڑی کی پیروڈییکل انسپکشن(ماہانہ یا سالانہ چیک اپ) کرآنا اور جلد بازی نہ کرنا شامل ہیں- اس کے علاوہ ہمیشہ گاڑی چلاتے وقت انسانی زندگی کو عزیز سمجھ کر نہ صرف خود اختیاط کرنا بلکہ دوسروں کوبھی احتیاط کی تلقین کرنا شامل ہونا چاہیے- یہی چیزیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم روزانہ کے حساب سے سڑک پر واقع ہونے والے حادثات سے محفوظ رہ سکتے ہیں-