سستی، خطرناک یا جان لیوا سواری

ہمارے ملک میں نوجوان طبقے کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو کہ کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ سرمایہ بڑے ہی انہماک سے ضائع ہورہا ہے جس کی وجہ ان کاغیرضروری سرگرمیوں میں مبتلاہونا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ اپنی آمدورفت اور روزمرہ کے معمولات کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں، موٹر سائیکل عام طور پر ایک سستی سواری سمجھی جاتی ہے۔ اب موٹرسائیکل کی خرید میں اور بھی زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ قسطوں پر فراہمی ہے۔ اور جو لوگ اسکو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ان کے لیے یہ اور بھی آسان ہوگیا ہے کہ ہر ماہ ایک معمولی رقم بطور قسط ادا کرتے رہیں اوراسے وہ اپنے استعمال میں لے آئیں۔ جس سے موٹر سائیکلوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔ موٹر سائیکل عموما نوجوان طبقے کی سواری سمجھی جاتی ہے جو کہ انہیں روز مرہ کے امور سر انجام دینے میں کافی حد تک مددگارثابت ہوتی ہے،اوران کے لیے ایک سستی اور سہل سواری سمجھی جاتی ہے لیکن نوجوان طبقہ زیادہ سڑک حادثات کا شکار اسی موٹر سائیکل کی وجہ سے ہی ہوتاہے۔ایک اندازے کے مطابق 60 سے 70 فیصد سڑک حادثات موٹر سائیکل کی وجہ سے ہوتے ہیں،جس کا مطلب ایک بڑی اور اہم وجہ حادثات کی موٹر سائیکل ہی ہے۔ عموما اکثر و بیشتردوست احباب مل کر ون ویلنگ، اوور سپیڈنگ اور اوورٹیکنگ جیسی سرگرمیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں لیکن خصوصا تہوار وغیرہ جیسے کہ عید پر اس طرح کی سر گرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے حادثات میں بھی اضافہ ہوجاتاہے، تقریبا ہر عید پر ہی خبروں کی سرخیوں میں ون ویلنگ ، اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے نا جانے کتنے حادثات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن تا حال اس کے سد باب کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی جا سکی۔ میری رائے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایسا مظبوط اور منظم نظام لانے کی ضرورت ہے جس میں طلبا کو خصوصی مراعات دی جائیں اور جو لوگ موٹر سائیکل کا استعمال کریں یا کوئی بھی ذاتی گاڑی، ان پر بھاری ٹیکسز اور اس کے ساتھ ساتھ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزائیں اور جرمانے عائد کیے جائیں تاکہ وہ یا تو خلاف ورزی سے باز آئیں گے یا خود کو ایک ترتیب دیے گئے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام پر منتقل کریں گے تاکہ سڑکوں پر انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ موٹر سائیکل سوار اور ان کی لاپرواہ انداز ان کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے، اور یہ تو وہ جوان ہوتے ہیں جنہوں نے اہنے ماں باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے، اپنے ملک کے روشن مستقبل میں اپنا کردار نبھا نا ہوتا ہے لیکن صحیح سمت کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرتی بے راہ روی کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تربیت ایک بہتر ماحول میں کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو ان کے جذبے اور لگن کے مطابق ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو مثبت سمت کی طرف گامزن کر سکیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top