پاکستان میں ٹریفک حادثات کی صورتحال خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والی اموات اور زخمی افراد 77 فیصد تک بڑھ جائیں گے جبکہ اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹر محمد زمان قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ عمرانیات کے چیئرمین ہیں اور ایچ ای سی کی جانب سے سونپے گئے ‘روڈ سیفٹی پروجیکٹ ‘ کی نگرانی بھی کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمیوں کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب لیتا ہے، حادثات میں خرچ ہونے والی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔
آج پاکستان میں روڈ سیفٹی کے لیے ان چند اہم ہدایات اور اقدامات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ترقی یافتہ ممالک نے جن پر عمل کر کے اپنے ملک کے ٹریفک نظام کو بہترین بنایا ہے۔ ہم ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں جس کا مقصد ان کی مثال سامنے رکھ کر بہتری کا رستہ اختیار کرنا ہے۔ ان اقدامات کو دیکھا جائے تو دستاویزات کی شکل میں تو موجود ہیں لیکن عملاً یہ غیرموجود ہیں۔
حکومت کو کیا کرنا چاہیئے؟
حکومت کو چاہیئے کہ روڈ سیفٹی کو وہ سیاسی سطح پر ترجیح دے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو، حکومت کو ایسی ایجنسی متعارف کرانا ہو گی جو سڑک پر حادثات سے بچاؤ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ حکومت اسے باقاعدہ وسائل فراہم کرے گی۔
اس کے علاوہ روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان بنانا ہوگا جس اس موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جا سکے اور جسے نافذ بھی کیا جا سکے۔ حکومت کی جانب سے روڈ سیفٹی پر کچھ رقم مخصوص کی جاتی ہے لیکن اس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ فیڈرل حکومت کی جانب سے ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ کو فنڈ دیئے جاتے ہیں جبکہ صوبائی حکومت اس معاملے کے لیے فنڈز مختص نہیں کرتی۔ سڑکوں کے انفراسٹرکچر کے لیے بہترین سول انجینئر لائے جانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ حکومت کو پرانے ٹریفک قوانین میں ترمیم کرنی ہو گی، ہمارے پاس موجود موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔
جس طرح ڈنڈے کے زور پر کام کرایا جاتا ہے اسی طرح سخت قوانین کو سامنے رکھ کر کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہاں پر جن چیزوں پر سختی سے عمل کرانا چاہیے وہ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال، قوانین کی پاسداری، جدید ٹیکنالوجی جس میں سی سی ٹی اور ڈبلیو سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام متعارف کرانا شامل ہے تاکہ ڈرائیورز حضرات کے ساتھ پیدل چلنے والے افراد پر با آسانی نگرانی رکھی جا سکے گی۔
اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہئے، اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد کرنا ہونا چاہیئے اور ڈرائیورز حضرات کے لیے گاڑی کی رفتار مختص کرنی ہوگی جبکہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔
روڈ سیفٹی کی ساخت اور ڈھانچہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اسکے علاوہ قانون بنانے والے اداروں کو ایسی پالیسی متعارف کرانی ہونگی جو زیادہ عرصہ تک لاگو بھی کی جا سکے۔ عموماً پاکستان میں متعارف کرائے جانے والا قانون زیادہ دیر تک لاگو نہیں کیا جاتا یا وہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس پر زیادہ دیر عمل نہیں کیا جا سکتا۔
گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار
گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔ پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتیں، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہچنے والے نقصان آپ سب کے سامنے ہی ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ انکو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔
یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ ان کمپنیوں کو ذمہ داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
صحت عامہ کا شعبہ روڈ سیفٹی پر کیا کام کر سکتا ہے؟
سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اسکے نتائج کے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ وفاقی، صوبائی،علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجنسی کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے۔
لوگوں میں حادثات اور صحت پر ہونے والے سالانہ اخراجات کے بارے میں لوگوں اور اداروں کو پتہ چلنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی لاپروائی کی وجہ سے ہونے والے خطرناک حادثات کے کسقدر منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
روڈ سیفٹی کے لیے ایک فرد اور شہری کیا کر سکتے ہیں؟
کسی بھی ملک کا نظام شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے اس لیے عوام کی جانب سے حکومت کو زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو بلند کرے۔ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ روڈ سیفٹی کے قوانین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں کیونکہ ملکی نظام کو بہتر بنانے کے لیے صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی بلکہ شہریوں کو بھی ٹریفک قوانین کی پیروی کرنا لازم ہے۔
اگر ان اقدامات پر عملدرآمد کیا جائے تو پاکستان میں بڑھتے ہوئے حادثات میں دھیرے دھیرے کمی لائی جا سکتی ہے۔