پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے اور گاڑیوں سمیت موٹرسائیکل اور پیدل چلنے والے اپنے بنائے گئے اصول و ضوابط کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں کامیاب رہتی ہیں جو بنائے گئے اصول و ضوابط پر قائم رہ کر زندگی گزارتی ہیں۔ ہر روز زندگی کے معاملات نمٹانے کے لیے سڑکوں پر آئیں تو اسلام آباد جیسا شہر، جہاں ٹریفک کا نظام تاحال پاکستان کے دوسرے شہروں سے بہتر سمجھاجاتا ہے، وہاں بھی اکثر ڈرائیورز اور پیدل چلنے والوں کی لاپروائی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ زیادہ تر موٹر سائیکل چلانے والے پولیس چوکی کے پاس آ کر ہیلمٹ پہنتے ہیں اور بعض گاڑی چلانے والے حضرات سیٹ بیلٹ پہنے کا دکھاوا کرتے ہیں، ایسے لوگ پولیس والوں کو نہیں بلکہ خود اپنی زندگی اور اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔
ٹریفک قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا جائے جو انتہائی قابلِ اہم مسئلہ ہے کیونکہ ان پر بات تو کی جاتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس پر کوئی بھی پیش رفت نہیں کی جا رہی۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین موجود ہیں، اکثر نئے قوانین بھی معرض وجود میں آتے ہیں لیکن مسئلہ ان قوانین کے عملدرآمد کا ہوتا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم سب گلی محلوں اور اکثر مصروف شاہراہوں پر دیکھتے ہیں کہ بچوں کا گاڑی و موٹرسائیکل چلانے کا سلسلہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیں! دس سے پندرہ سال کے بچوں کے پاؤں بمشکل گیئر اور کک تک پہنچ رہے ہوتے ہیں، ان کم عمر بچوں کو بغیر تربیت اور لائسنس کے گاڑی و موٹرسائیکل کی اجازت کس ملک میں ہے؟
اکثر بچے اپنے والدین کو پیچھے بیٹھا کر موٹرسائیکل یا گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں جس یہ بات تو واضح ہے کہ بچے اپنے والدین کی رضامندی سے یہ کام کرتے ہیں، قانون کی خلاف ورزی اکثر پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے اور انہی کے بچے ٹریفک قانون کی شکنی کرتے ہیں کیونکہ بچے اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں اگر بروقت انہیں اس خطرناک کام سے روکا نہ جائے تو یہی والدین ان بچوں کی موت کے ذمہ دار ہونگے۔
پاکستان میں بچوں کے گاڑی و موٹرسائیکل نہ چلانے کے حوالے سے قانون موجود ہی نہیں ہے، ٹریفک حادثات کی ایک وجہ قانون کی کمزوری اور ان قانون بنانے والے اداروں کی کم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 24 فیصد وہ افراد ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں جبکہ 41 فیصد وہ لوگ ہیں جو 21 سال سے کم عمر ہیں۔
پاکستان میں ایسے قوانین تشکیل کرنے کی ضرورت ہے جن کے مطابق اگر کم عمر بچے موٹرسائیکل و گاڑی چلائیں تو انکو انکے والدین سمیت گرفتار کر لینا چاہیے کیونکہ یہ بچے کھلے دہشت گرد ہیں جو دوسروں کے جان و مال کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی انکی گاڑی و موٹرسائیکل کو قبضہ میں لے لینا چاہیے اور بھاری جرمانہ عائد کرنا چاہیئے۔ جب تک ایسی سخت کارروائی نہ کی گئی تب تک ایسے لوگوں کے رویوں کی وجہ سے حادثات میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
ہمارے ملک میں طبقاتی نظام بہت عام ہے کیونکہ قانون کے محافظوں کا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سلوک انکی حیثیت کے مطابق کیا جاتا ہے، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا اسے ملتی ہے جو طاقت نہیں رکھتا جبکہ اثر و رسوخ والا سفارش کا سہارا لے کر بآسانی چھوٹ جاتا ہے۔
ہمارے پاس جو آرڈیننس موجود ہیں ان پر زیادہ تر عمل درآمد ہوتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر قومی ہائی ویز سیفٹی آرڈیننس 2000 کے مطابق باقاعدہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بے باک، خطرناک اور حد سے زیادہ تیز گاڑی چلائے جس سے دوسروں کی جان و مال کو خطرہ ہو تو ایسے شخص کو ایک مہینے کے لیے گرفتار کر لیا جائے گا اور اس پر عائد کردہ جرمانہ ایک ہزار ہوگا۔
یہ ایک اچھا قانون ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح چونکہ ہمارے پاس سڑکوں کی الیکٹرانک نگرانی کے نظام میں جگہ جگہ کیمرہ نسب ہی نہیں جس سے پتہ چلایا جا سکے کہ کہاں اور کس جگہ کون سی گاڑی و موٹرسائیکل تیز رفتاری سے ساتھ چلا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک چیز جو قابلِ غور ہے وہ کم جرمانہ ہے جو لوگوں میں منفی رویہ پیدا کر رہا ہے۔ فرض کریں ایک ایسا شخص جس کے پاس تین کروڑ کی گاڑی ہے اور ہزار روپیہ جرمانہ عائد ہو تو اسکے لیے یہ معمولی رقم ہے اور وہ اپنی جان جرمانہ دے کر بآسانی چُھڑا لے گا۔
ایک ایسی خلاف ورزی جو کھُلے عام پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں نوجوانوں کی طرف سے کی جاتی ہے وہ مصروف شاہراہوں پر ون ویلنگ ہے جس کے متعلق کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے، یہ نوجوان کھلے عام سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں اور دوسروں کی جان و مال کے ساتھ ساتھ اپنی جان کے بھی دشمن بنے بیٹھے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے قوانین میں نئے سرے سے تشکیل و ترمیم اور نئی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ پالیسی بننے کے بعد اس پر سختی سے عمل درآمد کرانا بھی ضروری ہے، اسکے علاوہ اکثر ایسی ٹریفک پالیسیاں ہیں جو بننے کے بعد منظوری کے لیے طویل عرصے تک سرد خانے میں پڑی رہتی ہیں۔
پاکستان میں قانون سازی، اسکو تشکیل دینے اور اسے نافذ کرنے والوں میں مکمل تفہیم کی ضرورت درکار ہے، اسی طرح ٹریفک حادثات میں کمی کی پالیسی اور لوگوں کے رویوں کو بہتر بنانے کے لیے پالیسی کا سادہ اور متحرک ہونا نہایت اہم ہے۔ ریاست اور قانون بنانے والوں اداروں کو چاہیے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور نقصان ہونے سے پہلے ہی اس کا مداوا کر لیں۔
لوگوں کے دلوں میں قانون کا خوف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے ڈریں، ہم صرف اسی وقت کام بخوبی کرتے ہیں جب دل میں خوف ہوجو لوگ پاکستان میں بہت بے باکی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں، وہی لوگ باہر کے ممالک میں قوانین کا احترام اور اسکو اپنانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔
اسی طرح ٹریفک پولیس کو بھی ان قوانین کا احترام کرنا چاہیے، گاڑی چلانے والا خواہ کسی بڑے رتبے سے وابستہ ہوں یا عام آدمی ہو، ٹریفک اہکار کا سلوک سب کے ساتھ ایک جیسا ہونا چاہیئے۔ اگر پاکستان میں حکومت اور قانون بنانے والے اداروں کی طرف سے بروقت کارروائی نا کی گئی تو گاڑیوں کی تعداد مسلسل بڑھنے کی وجہ سے حادثات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔