ٹریفک حادثات ۔۔۔ کیا ہیں وجوہات؟

زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات میں نقل و حمل کو خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت آمدورفت کے ذرائع میں جدت پسندی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی جہاں قدیم ادوار میں چند گھنٹوں کا سفر دو سے تین دن میں طے پاتا تھا۔

اب یہی سفر چند گھنٹوں کی مسافت سے طے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہوچکا ہے جب کہ 2030 تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جن کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل بہ آسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔ اگر مختلف صوبوں میں ٹریفک حادثات کی صورت حال دیکھی جائے تو ادارہ شماریات نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں 2018-2017 کے کُل حادثات کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی جس میں صوبہ پنجاب میں کُل 5093 حادثات ہوئے جن میں 3371 لوگ جاں بحق، 6772 افراد زخمی ہوئے۔ سندھ میں کُل 848 حادثات ہوئے، جن میں 802 جاں بحق جب کہ 838 افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختون خواہ میں کُل 4425 حادثات ہوئے جن میں 1298 جاں بحق جب کہ 6093 افراد زخمی ہوئے، بلوچستان میں 1496 حادثات ہوئے جن میں 313 لوگ جاں بحق اور 624 لوگ زخمی ہوئے اور اسلام آباد میں 259 حادثات ہوئے جن میں 167 لوگ جاں بحق جب کہ 162 لوگ زخمی ہوئے۔ ان حادثات کا تجزیہ کیا جائے تو ان حادثات میں پنجاب سرفہرست ہے کیوںکہ وہاں آبادی باقی صوبوں کی سے زیادہ ہے۔

نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فی صد تک بڑھ جائیں گے۔ اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

ڈاکٹر محمد زمان قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبۂ عمرانیات کے چیئرمین ہیں اور ایچ ای سی کی جانب سے سونپے گئے روڈ سیفٹی پروجیکٹ کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان آئی- ایم- ایف سے 6 ارب لیتا ہے جب کہ حادثات میں خرچ ہونے والی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات پر غور کیا جائے تو ان کی مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں: سب سے پہلے ڈرائیورز حضرات کی جانب سے ٹریفک سگنل کا توڑنا، سیٹ بیلٹ کے استعمال میں بے پروائی و غفلت، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور تعمیل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونے والی تیکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، گاڑی کی ناقص حالت کی وجہ سے ٹائر کا پنکچر ہونا، یاں محدود مدت کے بعد ٹائروں کی حفاظت و تبدیلی نہ کروانا حادثات کی وجوہات میں شامل ہیں۔ تاہم، ڈرائیورز کی بے پروائی و غفلت گاڑیوں کے تیکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فی صد حادثات تیزرفتاری جب کہ 17 فی صد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں پر 84 فی صد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور پگڈنڈی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو دیکھا بھی گیا ہے کے ڈرائیور حضرات کی طرف سے پیدل چلنے والے افراد کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، جہاں سڑک پر زیادہ رش ہو ڈرائیورز حضرات شارٹ کٹ کے چکر میں فٹ پاتھ یا پگڈنڈی کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کم عمر نوجوانوں کا موٹرسائیکل و گاڑی چلانے کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خطرناک حادثات پیش آتے ہیں۔ اس لیے 24 فی صد لوگ ایسے ہیں جو بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں اور یہ لوگ سڑکوں پر کسی دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔

پاکستان میں پچھلے کئی سال کے دوران درآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 250,000 ہے۔ ملک میں اس وقت صنعتیں زوال کا شکار ہیں، اس میں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے جہاں ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے اور جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جب کہ ان میں تحفظ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہوتا جس سے گاڑی میں سوار افراد کی جانیں بچ سکیں۔

اس کے علاوہ اوورلوڈنگ حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے؛ اوورلوڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا ٹائر میں گرمائش زیادہ ہونے کے سبب ٹائر پھٹ جاتے ہیں جس سے بڑی گاڑیوں کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔

سڑکوں پر موٹرسائیکل چلانے والے اپنے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیتے، اگر پیچھے والوں کو اشارہ نہیں دیں گے تو غلط اوورٹینگ سے اچانک موٹرسائیکل و گاڑیوں کے مابین ٹکر ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف ان آرڈیننس کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

ہم ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں جس کا مقصد ان کی مثال سامنے رکھ کر بہتری کا رستہ اختیار کرنا ہے۔ ان اقدامات کو دیکھا جائے تو دستاویزات کی شکل میں تو موجود ہیں لیکن عملاً یہ غیرموجود ہیں۔

حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

حکومت کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کو ترجیح دے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا ادارہ ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو، حکومت کو ایسی ایجنسی متعارف کرانا ہوگی جو سڑک پر حادثات سے بچاؤ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ حکومت اسے باقاعدہ وسائل فراہم کرے گی۔

اس کے علاوہ روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان بنانا ہوگا جس اس موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جا سکے اور جسے نافذ بھی کیا جا سکے۔ حکومت کی جانب سے روڈ سیفٹی پر کچھ رقم مخصوص کی جاتی ہے لیکن اس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ فیڈرل حکومت کی جانب سے ٹریفک پولیس ڈپارٹمنٹ کو فنڈ دیے جاتے ہیں جب کہ صوبائی حکومت اس معاملے کے لیے فنڈز مختص نہیں کرتی۔ سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کے لیے بہترین سول انجینئر لائے جانے چاہییں۔

اس کے ساتھ حکومت کو پرانے ٹریفک قوانین میں ترمیم کرنی ہو گی۔ ہمارے پاس موجود موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔

جس طرح ڈنڈے کے زور پر کام کرایا جاتا ہے اسی طرح سخت قوانین کو سامنے رکھ کر کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہاں پر جن چیزوں پر سختی سے عمل کرانا چاہیے ان میں ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال، قوانین کی پاسداری، جدید ٹیکنالوجی جس میں سی سی ٹی اور ڈبلیو سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام متعارف کرانا شامل ہے تاکہ ڈرائیورز حضرات کے ساتھ پیدل چلنے والے افراد پر بہ آسانی نگرانی رکھی جا سکے گی۔

اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہیے، اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد کرنا ہونا چاہیے اور ڈرائیورز حضرات کے لیے گاڑی کی رفتار مختص کرنی ہوگی جب کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔

روڈ سیفٹی کی ساخت اور ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اسکے علاوہ قانون بنانے والے اداروں کو ایسی پالیسی متعارف کرانی ہونگی جو زیادہ عرصہ تک لاگو بھی کی جا سکے۔ عموماً پاکستان میں متعارف کرائے جانے والا قانون زیادہ دیر تک لاگو نہیں کیا جاتا یا وہ اتنا کم زور ہوتا ہے کہ اس پر زیادہ دیر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار

گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔ پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتیں، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات آپ سب کے سامنے ہی ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔

یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ ان کمپنیوں کو ذمے داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

صحت عامہ کا شعبہ روڈ سیفٹی پر کیا کام کر سکتا ہے؟

سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اس کے نتائج کے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجینسی کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے۔

حادثات اور صحت پر ہونے والے سالانہ اخراجات کے بارے میں لوگوں اور اداروں کو پتا چلنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی بے پروائی کی وجہ سے ہونے والے خطرناک حادثات کے کس قدر منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

روڈ سیفٹی کے لیے ایک فرد اور شہری کیا کر سکتے ہیں؟

کسی بھی ملک کا نظام شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے اس لیے عوام کی جانب سے حکومت پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو بلند کرے۔ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ روڈ سیفٹی کے قوانین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں کیوںکہ ملکی نظام کو بہتر بنانا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی بلکہ شہریوں کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی پیروی کرنا لازمی ہے۔

اگر ان مجوزہ اقدامات پر عمل درآمد کیا جائے تو پاکستان میں بڑھتے ہوئے حادثات میں دھیرے دھیرے کمی لائی جا سکتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top