چند دن پہلے ایک انتہائی عزیز اور کم عمر دوست شکیل ظفر جو کہ مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے ماہر تھے اور ہماری ٹیم کا حصہ بھی تھے، کی ٹریفک حادثے میں اچانک موت نے مجھے حیرت زدہ اور غمزدہ کر دیا۔ جہاں یہ خبر میرے لیے انتہائی افسوناک تھی وہیں ناقابل یقین بھی کہ موت کتنی بے رحمی سے یکم دم دبوچ لیتی ہے اور انسان بے بسی کی تصویر بنا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں اموات کا سلسلہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ یومیہ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور سینکڑوں افراد معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس سنگین مسئلے پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ تئیس چوبیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں کوئی خاص منظم اور مربوط ٹریفک نظام موجود نہیں۔ دن بدن بڑھتی آبادی،سڑکوں پہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور موٹر سائیکل سواروں کا بے پناہ ہجوم، تیزرفتاری، سڑکوں کی کمی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ان تمام حادثات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس ضمن میں کافی سالوں سے میں پاکستان کے ٹریفک نظام میں بہتری اور جدید اصلاحات کے لیے کوشاں ہوں۔ جسکا مقصد ایک ایسا جدید نظام متعارف کرانا ہے، جس سے ٹریفک حادثات میں کمی، جدید اور سمارٹ ٹریفک سسٹم کا اجراء اور ماحولیاتی آلودگی میں نمایاں کمی لانا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں کافی عرصے کی جدوجہد اور کاوشوں کے بعد مؤرخہ 7 جون 2023 کو جامعہ قائد اعظم کے شعبہ عمرانیات کی جانب سے “موجودہ وسائل کا بہترین استعمال: سڑک کے تحفظ کے لیے پروٹوٹائپ ماڈل “پر سیمینار منعقد کیا گیا جہاں وزیر برائے انسانی حقوق میاں محمد ریاض حسین پیرزادہ نے اس سیمنار سے خطاب کیا۔ سیمنار میں جامع قائد اعظم کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر، سماجی علوم کے ڈین ڈاکٹر محمد ادریس، پروجیکٹ کے پرنسپل انوسٹی گیٹر ڈاکٹر محمد زمان (راقم)، ڈاکٹر عمران صابر، شعبہ الیکٹرانک کے پروفیسر ڈاکٹر حسن محمود، جامع قائد اعظم کی ٹیم سمیت این آئی آر ایس کے ڈائریکٹر ملک رمضان موجود تھے۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد روڈ سیفٹی اور انسانی حقوق کے مسئلہ کو اجاگر کرنا تھا کیونکہ سڑکوں پر رونما ہونے والے حادثات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں راقم کی جانب سے پالیسی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ آئی او ٹی کے تعاون سے ٹرانسپورٹ کے نظام پر ہماری ٹیم نہایت دلجمعی سے کام کر رہی ہے اس پر وزیر برائے انسانی حقوق نے ہمارے جذبے کو بے حد سراہا۔ میں نے انہیں مزید بتایا کہ آئی او ٹی کی مدد سے نہ صرف مواد کو منظم کیا جا سکے گا بلکہ سمارٹ ڈرائیونگ لائسنس، سمارٹ ٹرانسپورٹ، سمارٹ پارکنگ سمیت سفر کی سمارٹ منصوبہ سازی بھی ہو سکے گی۔ مزید برآں اس نظام کے تعاون سے ٹریفک کے مسائل جیسے سٹرکوں پر بھیڑ، کاربن کے اخراج، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور غلط پارکنگ سے پیدا ہونے والی بدنظمی کا مؤثر حل مل سکے گا۔ اسکے علاوہ ہم نے وزیر برائے انسانی حقوق کو ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی، جس میں روڈ سیفٹی کے مستقبل کے مقاصد کے حوالے سے انکو آگاہ کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی جامعہ قائد اعظم کے سماجی علوم کے ڈین ڈاکٹر محمد ادریس نے جی سی ایف 744 کی کاوشوں کو سراہا اور ہماری کارکردگی پر فخر و مسرت کا اظہار کیا۔ مزید برآں وزیر برائے انسانی حقوق میاں ریاض حسین پیرزادہ صاحب نے پروجیکٹ کی تمام ٹیم کی کاوشوں کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ محفوظ سڑکوں کا ہونا پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اور اس ضمن میں شہریوں کے لیے محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ انکی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ وزیر برائے انسانی حقوق نے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ روڈ سیفٹی کے مسئلہ کو فروغ دینے کے لیے پارلیمنٹ، کابینہ کے اراکین اور پرائم منسٹر تک روڈ سیفٹی کے لیے اپنی آواز کو بلند کریں گے۔ اگرچہ میری اور میری تمام ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ کافی تھا لیکن ہمارا اصل ہدف ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ہماری محنت کا پھل ہمیں اس دن ملے گا جب عملاً ٹریفک نظام میں جدید ٹیکنالوجی اور سمارٹ سسٹم کا اجراء ہو گا۔ اس جدید نظام سے نا صرف انسانوں کی زندگیاں محفوظ ہونگی بلکہ عوام الناس کی صحت سے جڑے کئی مسائل بھی حل ہوںگے۔ سڑکوں پہ گاڑیوں کا سیلاب ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ لاکھوں گاڑیاں ، موٹر سائیکل ، رکشہ ، بسیں وغیرہ مضر صحت دھواں خارج کر کے ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں، جس سے سانس، دل، پھیپھڑوں اور جلد کی کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ نیز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہمارے ہاں معمولی بات ہے۔ سیٹ بیلٹ کا استعمال نا کرنا، موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ نا پہننا، تیز رفتاری اور سگنلز کو توڑنا معمول کی باتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں اموات کی خبریں ہم تواتر سے سنتے آ رہے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کے لیے الگ راہداریوں کا ہونا، موٹر سائیکل سواروں کے لئے الگ راستے / ٹریک کا ہونا بہت ضروری ہے۔ نیز سڑکوں پر گاڑیوں کے ہجوم پر قابو پانے کے لیے معیاری و منظم جدید پبلک ٹرانسپورٹ کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ ایسی پبلک ٹرانسپورٹ جو سستی اور معیاری ہو، چند سو گز کے فاصلے پر میسر ہو اور جسکی تعداد دگنی تگنی کر دی جائے تاکہ لوگ ذاتی سواری کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ جیسا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذاتی گاڑی پہ دگنا ٹیکس عائد ہوتا ہے اور عوامی سواری انتہائی سستی اور چند قدم کے فاصلے پر میسر ہوتی ہیں۔ اس سے نا صرف پیٹرول کی بچت ہوگی بلکہ عوام الناس میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام معروف و مقبول ہو گا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ذاتی گاڑی رکھنا اور اسکے اخراجات برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ سے زیادہ ہونا لوگوں کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ اسکے علاؤہ ایک بہت بڑا اور پیچیدہ مسئلہ پارکنگ کا نہ ہونا بھی ہے۔ کھلی اور کشادہ سڑکوں کے باوجود ٹریفک بے ہنگم طریقے سے چلتی ہے کیونکہ لوگ جابجا گاڑیاں کھڑی کر دیتے ہیں۔ بے تکے اور بے ڈھنگے طریقے سے کی گئی پارکنگ بھی ہمارے ہاں ایک سنگین مسئلہ ہے جس پہ کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ سمارٹ پارکنگ سے اس مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ میں اور میری ٹیم دن رات محنت سے کام کررہے ہیں اور اس جدید منصوبے کو باقاعدہ نظام کا حصہ بنانا چاہتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا جب حکومت کی جانب سے تعاون و سرپرستی یقینی طور پر ہمارے شامل حال ہوگی اور ہماری کاوشوں کو عملی جامہ پہنانے میں ہمارا ساتھ دے گی۔ اور ہم اس ضمن میں وزیر برائے انسانی حقوق کے تعاون و سرپرستی کی یقین دہانی کے شکر گزار ہیں کہ وہ محض باتوں کی بجائے عملی طور پر بھی ہمارا بھرپور ساتھ دیں گے اور اس نظام کے عملاً لاگو ہونے تک ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔